قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمتہ اللہ علیہ

قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری  رحمتہ اللہ علیہ  کا مختصر شجرہ نسب یہ ہے۔ کہ محمد سلیمان بن احمد شاہ بن معیز الدین باقی باللہ بن   قاضی ابوالقاسم مذکر ؒ   بن مولانہ قاضی قطب الدین   ؒ   بن  پیر محمد صاحبؒ  بن  محمد صالح  بن   حافظ حبیبؒ صاحب بن  عون بن عبداللہ عرف قطب شاہ  بن حضرت عباس ؒ  بن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے خاندان کے ایک بزرگ جن کا نام پیر محمد تھا۔ وہ عہد مغلیہ میں دہلی کے منصب قضاء پر فائز تھے اور اسی منصب کی روسے انہیں قاضی کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد خاندان کے ہر فرد کو قاضی کہا جانے لگا۔ اور یہ خاندان " قاضی خاندان " کے نام سے مشہور ہو گیا۔

آگے چل کر ان کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا سے جا ملتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ علوی ہوئے لیکن کسی نے اپنے نام کے ساتھ " علوی " نہیں لکھا۔ قاضی محمد سلیمان ان کے پردادا قاضی باقی باللہ ضلع فیروز پور (موجود ضلع فرید کوٹ مشرقی پنجاب) کے ایک چھوٹے سے گاؤں بڈھیمال اقامت گزیں تھے۔ اور تیرہویں صدی ہجری کے معروف عالم و عابد حضرت غلام علی شاہ محمد  دہلوی کے حلقہ بیت میں شامل تھے۔ ان کے حکم کے مطابق انہوں نے بڈھیمال سکونت ترک کر کے منصور پور کو تبلیغ دین کا مرکز بنایا اور اس کے نواح میں وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا۔ منصور پور    جسے قاضی باقی اللہ نے اپنامر کز تبلیغ قرار دیا ثابق ریاست پٹیالہ (موجودہ ضع پٹیالہ) کا ایک پر انا تاریخی قصبہ ہے۔ جو ہندوستان کے تغلق حکومت کے دور سے آباد ہے اور انبالا بٹھنڈا ر یلوے لائن پر پٹیالہ سے بنتیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع .ہے قاضی باقی باللہ کے بیٹے قاضی معیز الدین بھی باپ کے ساتھ تبلیغ دین میں مشغول رہے۔ وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا۔ لوگوں کو فی سبیل اللہ قرآن مجید اور علوم  دینیہ کی تعلیم دیتے تھے۔
ان کے حدود اثر کا
دائرہ منصور پور سے باہر نکل کر قرب وجوار کے قصبات اور دیہات تک پھیل چکا تھا ۔ لوگ دور دور سے احکام شرعیہ سیکھنے اور اومر و نواہی سے باخبر ہونے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔
قاضی محمد سلیمان منصور پوری کے والد گرامی قاضی احمد شاہ جو ۰ ۱۲۵ ہجری (۱۸۶۴ء) کو منصور پور میں پیدا ہوئے۔ اپنے باپ اور دادا کی طرح علم و عمل اور تقوی و صلاحیت کی دولت سے بہرا ور تھے۔ با عمل عالم تہجد گزار اور شب زندہ دار بزرگ
تھے۔  انہوں نے دوحج کئے پہلا حج ۱۳۱۳ھ (۱۸۹۱ء) میں کیا اور دوسرا حج ۱۳۲۴ھ (۱۹۰۷ء) میں کیا.قاضی احمد شاہ ۲۸ محرم ۱۳۲۸ (۱۹ فروری ۱۹۱۰ء) کو پٹیالہ میں میں فوت ہوئے اور وہیں دفن کیے گئے۔
قاضی احمد شاہ کی نرینہ اولاد تین بیٹے تھے ۔ جن کے نام الترتیب یہ ہیں۔ محمد سلیمان - عبد الرحمن اور محمد ۔ سب سے چھوٹے محمد تھے جو کم سنی میں وفات پاگئے تھے ان سے بڑے قاضی عبد الرحمٰن تھے عابد و زاہد متقی اور منکسر مزاج تھے۔فن ریاضی بیت و فلکیات میں خاص طور سے مہارت کرتے تھے۔ حضرت مولانا محی الدین عبد الرحمن لکھوی (متوفی ۱۳۱۳ھ ) کے حلقے ارادت میں شامل تھے۔تقسیم ملک کے بعد ۱۳ نمبر ۱۹۴۷ کی شب کو لاہور پہنچے۔ کچھ عرصہ بیمار رہے ۲۳ دسمبر ۱۹۴۷ کو لاہور میں فوت ہوئے۔ اور کرشن نگر کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔

قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری ۱۸۶۷ء (۱۲۸۴ھ ) کو منصور پور میں پیدا ہوئے۔ والد کی طرح والدہ بھی نہایت صالح اور عبادت گاہ خاتون تھیں اپنے بیٹیوں کو وضو کر کے دودھ پلایا کرتی تھیں۔
قاضی صاحب نے قرآن مجید اور اس دور کی مروجہ ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی قاضی احمد شاہ سے حاصل کی۔ باقی علوم اس دور کے مختلف اہل علم سے پڑھے جن میں میں موضع کوم (ضلع لودھیانہ) کےایک عالم دین مولانا عبد العزیز کوموئی کا نام بھی شامل ہے۔
۱۸۸۴ء میں قاضی صاحب نے مہندر کالج پنیالہ کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی میں منشی فاضل کا امتحان دیا اور یونیورسٹی میں اول آئے۔ یہ سرکاری طور پر فارسی کی اعلی تعلیم کا امتحان تھا۔ قاضی صاحب کی عمر اس وقت سترہ برس تھی۔ اس عمر میں وہ علوم عربیہ و دینہ اور فارس کی اعلٰی مروجہ تعلیم سے فارغ ہو چکے تھے۔
سرکاری ملازمت کے دائرے میں آنے کی عمر قانونی لحاظ سے کم از کم ۱۸ سال تھی۔ لیکن قاضی صاحب اس سے چھ مہینے کم یعنی ساڑھے سترہ برس کی عمر میں بحیثیت سر رشتہ دار محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ان کی ملازمت کا آغاز ریاست پٹیالہ کے محکمہ تعلیم کے سپریٹنڈنٹ کے طور پر ہوا تھا۔ وہ اس وقت ریاست کے تمام اہلکاروں سے کم عمر تھے یہ ۱۸۸۵ء کی بات ہے۔
کم و بیش پندر و سال وہ ریاست کے محکمہ تعلیم میں خدمت انجام دیتے رہے۔ ان کے اس حسن کار اور طریقہ عمل کے نہ صرف محکمہ تعلیم کے چھوٹے بڑے منصب دار مداح تھے بلکہ دیگر سرکاری محکموں سے تعلق رکھنے والے اہلکار بھی ان کی کار کردگی کو سراہتے اور اپنی مجلسوں میں بطور مثال ان کا ذکر کرتے تھے۔ بعد ازاں محکمہ تعلیم سے قاضی صاحب کو عدلیہ کے محکمہ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد قاضی صاحب تمام عمر عدلیہ میں رہے اور تھوڑے عرصے میں اتنی ترقی کی کہ ریاست پٹیالہ کے سیشن جج بنا دیے گئے۔ اس نازک ترین محکمے میں ان کی زندگی کے بہت سے واقعات مشہور ہیں لیکن ان کی تفصیلات میں جانے کا یہ محل نہیں۔ سرکاری امور میں انتہائی مصروفیت باوجود قاضی صاحب نے اپنی علمی اور تصنیفی سرگرمیاں ہمیشہ جاری رکھیں۔ قرآن، حدیث، فقہ ، سیرت اور تاریخ وغیرہ میں متعد داہم عنوانات پر انہوں نے جس اسلوب میں اظہار خیال فرمایا ہو وہ اچھوتا اور منفرد نوعیت کا ہے۔ عیسائیت اور مرزائیت کے مختلف پہلوؤں کو بھی انھوں نے موضوعات تحقیق بنایا اور اس موضوع پر کتا ہیں لکھیں۔ اہل حدیث اور بعض دیگر مسالک کے تبلیغی اجتعمات میں بھی وہ شرکت فرماتے تھے۔ بعض جلسوں کی صدارت کی ذمہ داری سپرد ہوئی اور ان میں انہوں نے تحریری خطبات صدارت پڑھے۔ آل انڈیا اہل حدیث کا نفرنس کے کئی جلسوں کی انہوں نے صدارت کی اور تحریری خطبات ارشاد فرمائے۔ لوگوں سے میل جول کا سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے۔ اپنے اعزیز واقارب اور احباب و متعلقین کے معاملات میں بھی دلچسپی لیتے تھے ۔ مسجد میں روزانہ درس قرآن بھی ان کے فرائض میں شامل تھا۔ آپ خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرماتے تھے۔ ۔ لوگ بذریعہ تحریر فقہی مسائل بھی دریافت کرتے اور وہ ان کا تحریری صورت میں جواب دیتے تھے۔ ان کی زندگی کے شب و روز بدرجہ غایت مصروفیت میں گزرتے تھے۔ اور اللہ نے ان کو بے پناہ ہمت اور بو قلموں اوصاف نوازا تھا۔ ان کی تصانیف جیسا کہ عرض کیا گیا گوناگوں موضوعات پر مشتمل ہیں جو اہل علم سے خراج تحسین وصول کر چکی ہے اور لوگوں نے ان سے خوب استفادہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ وہ تصانیف حسب ذیل ہیں۔
رحمت اللعالمین ﷺ سیرت نبویﷺ سے متعلق یہ انتہائی اہم کتاب جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اسے بہت سے ناشروں نے شائع کیا۔ لیکن مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد نے اسے نہایت عمدہ کاغذ نفیس کمپوزنگ کے ساتھ شائع کیا۔ اس کتاب کی ابتدا میں قاضی صاحب کے مفصل حالات شامل ہیں اس سے پہلے کسی ناشر نے ان کے حالات نہیں لکھے۔؂
غایتہ المرام یہ کتاب غلام مرزا غلام احمد قادیانی کی بعض کتابوں کے جواب میں لکھی گئی۔ سال تالیف ۱۸۹۳، مرزا غلام احمد سمیت کوئی مرزائی آج تک اس کا جواب نہیں دے سکا۔
تائید اُلْاسلام اس میں بھی مرزا غلام احمد قادیانی کے افتقار کی تردید کی گئی ہے۔ اس کا جواب بھی کوئی مرزائی نہ دے گا۔ ۱۸۹۸ء میں مرزا صاحب کی زندگی میں چھپی۔
خطبات سلمان وہ خطبات صدارت جو قاضی صاحب نے بر صغیر کی مختلف انجمنوں اور جلسوں میں ارشاد فرمائے۔ سب علمی و تحقیقی نوعیت کے خطبات ہیں
 تاریخ المشاہیر متعد دائمه دین فقهاء محدثین، مشائخ کرام، شعراء و ادباء مصنفین و مؤلفین، مملوک و وزراء کے حالات و واقعات اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیں۔
مسح جراب یہ علامہ جلال الدین قاسمی الدمشقی کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ ہے جس میں دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے
استقامت ۱۹۰۰ء کا واقعہ ہے۔ قاضی صاحب تحریر فرماتے ہیں میں دفتر جارہا تھا کہ راستے میں پوسٹ مین نے مجھے خط دیا۔ جس میں صاحب مکتوب نے فرمایا تھا کہ اگر مجھے تسلی بخش جواب نہ ملا تو عیسائی ہو جاؤں گا۔ یہ خط پڑھ کر میں گھر کی طرف لوٹ کہ مبادا دیر نہ ہو جائے اور وہ اسلام کو چھوڑ نہ دے۔ چنانچہ آدھ گھنٹے میں یہ خط لکھا ڈاک میں ڈالا اور دفتر روانہ ہوا۔ بعد میں یہ خط ایک مستقل کتاب بن گیا جس کے اشاعت استقامت کے نام سے ہوئی ہے۔ صاحب مکتوب مجھ اللہ اسلام پر قائم رہے۔
مکاتیب سلمان یہ چونتیس خطوط کا مجموعہ ہے  جو   قاضی صاحب  نے مختلف حضرات کے استفارات کے  جواب  میں لکھے تھے ۔  یہ قاضی صاحب کی قابلیت کا ایک نمونہ ہے ۔ ان میں سے بیشتر جوابات آج  بھی بہت مفید اور تازہ ہیں-
برہان غازی محمود دھرم پال اپنے دور کی ایک بڑی اور معروف شخصیت کا نام تھا۔ وہ ۳ فروری ۱۹۸۲ء کو ضلع ہوشیار پور مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں بہنوہ کے متمدن خاندان میں پید اہوئے۔ ان کا نام عبد الغفور رکھا گیا یا بڑے ذہین اور پڑھے لکھے آدمی تھے ۔ ۱۴ جون ۱۹۳۳ء کو گوجرانوالہ میں ہندوؤں کا آریہ مذہب اختیار کر لیا گیا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئی کتابیں تصنیف کیں۔ پھر انکی زندگی نے پلٹا کھایا اور قاضی صاحب نے نے ۴ ۱مئی ۱۹۱۴ء کو  انکے سوالات و اعتراضات  (جو کہ اخبار میں انکے اشتہار  میں  شائح ہوئے تھے)   کے جواب میں ایک طویل خط لکھا۔ جسے پڑھ کے وہ قاضی صاحب کی خدمت میں گئے اور ۱۴ میں ۱۹۱۴ ء کو دوبارہ مسلمان ہو گئے۔ اپنا نام غازی محمود دھرم پال رکھا اسلام کے بہت بڑے مبلغ ہوئے۔ جمعتہ المبارک کے دن ۱۸ مارچ ۱۹۶۰ء ( ۲۰ رمضان المبارک (۱۳۷۹ء) کو لاہور میں وفات پائی اور قبرستان میانی صاحب میں دفن کیے گئے
 سفر نامہ حجاز ۱۹۲۱ میں قاضی صاحب نے پہلا حج کیا اور سفر نامہ حجاز لکھا جو اس دور کی سر زمین حجاز کی بہت سی معلومات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
اصلوۃ وسلام امام ابن قیم رحمت اللہ علیہ کی کتاب کا اردو ترجمہ انجیلوں میں خدا کا بیٹا عیسائیت کے خلاف امام رازی کی تفسیر سورہ الفلق کا ترجمہ
تبیان  اسلام
حج و عمرہ کے مسائل پر  مشتمل
آئینہ تصوف
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے بعض افطار کا ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی جتہ الہ البالغہ اردو ترجمہ کیا کے افسوس کہ مسودہ ضائع ہو گیا کتاب چھپ نہ سکی۔
ایک عرض کا جواب
عیسائیوں کے بارے میں
اصحاب بدر اس میں ان صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے حالات درج ہیں جنہوں نے اسلام کی پہلی جنگ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا
الجمال والكمال قاضی صاحب کی تصانیف میں سے ایک مشہور اور اہم تصنیف الجمال و الکمال ہےجو سورۂ یوسف کی تفسیر ہے۔ سورۂ یوسف کی اردو زبان میں بہت سے اہل علم نے تفصیلیں لکھیں ہیں، لیکن قاضی صاحب کی تحریر فرمودہ تفصیل سب سے منفرد نوعیت کی ہے۔ انہوں نے پہلا حج بیت اللہ ۱۹۲۱ء میں کیا تھا۔ وہ اس وقت پنجاب کی ریاست پٹیالہ کے سیشن جج تھے۔ ۵ مئی ۱۹۲۱ء کو پٹیالہ سے روانہ ہوئے اور دہلی آئے۔ وہاں کچھ قیام فرماکر بمبئی پہنچے۔ ۷ مئی کو بمبئی سے جدہ جہاز پر روانہ ہوئے اور ۳ جون کی شام کو جدہ کی بندرگاہ میں اترے۔ اس زمانے میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، اور جدہ میں حاجیوں کی آمد و رفت کا ذریعہ اونٹ تھے۔ موٹروں ، بسوں، اور کاروں کاکہیں نام و نشان نہ تھا۔ نہ پکی سڑکیں تھیں، کچے اور ریتلے راستے تھے۔قاضی صاحب جہاز سے اترتے ہی مکہ مکرمہ کو روانہ ہو گئے تھے۔ تیسرے دن ۵ جون ۱۹۲۱ء (۲۷ رمضان المبارک ۱۳۳۹ھ) کو سحری کے وقت تک وہیں قیام فرمارہے۔ سورۂ یوسف مکہ مکرمہ نازل ہوئی تھی اور قاضی صاحب نے وہیں سے اس کے لکھنے کاآغاز کیا اور وہیں ۱۷ ذوالحجہ ۱۳۳۹ھ (۲۲ اگست ۱۹۲۱ء ) کو تفسیر مکمل کر لی، یعنی تقریبا ۲ (دو)مہینے میں وہ اس فریضے سے سبکدوش ہوگئے۔ لکھنے پڑھنے وہ بہت تیز تھےاور علم کا خزانہ۔ محمد اسحاق بھٹی ٹی وی اسلامیہ کالونی ساندہ لاہور اور یکم ذیقعدہ ۱۴۲۴ھ ۲۵؍ ستمبر ۲۰۰۳ء

قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری رحمتہ اللہ علیہ ایک معروف عالم دین، فقیہ، اور مؤلف تھے جن کا شجرہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ ان کا خاندان "قاضی خاندان" کے نام سے مشہور ہے، جو مغل دور میں قضاء کے منصب پر فائز تھا۔ قاضی محمد سلیمان نے قرآن و حدیث، فقہ، سیرت، اور تاریخ پر متعدد علمی و تحقیقی کتابیں لکھیں جن میں "رحمت اللعالمین" (سیرت النبی ﷺ)، "غایتہ المرام" (مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف)، اور "استقامت" شامل ہیں۔ ان کی علمی خدمات اور تبلیغی سرگرمیاں ہندوستان بھر میں مشہور تھیں۔

کتب لائبریری